سا تویں قسط: دلہن کے گھر کا شور اور خوابوں کا بازاراسلام آباد: خواجہ منزل کا حُسن
اسلام آباد کی شاہراہ پر واقع ایک وسیع اور خوبصورت "خواجہ منزل" آج پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔ یہ رِمین کے بڈے ابا کا گھر تھا، اور آج اُن کی بیٹی، رِمین کی تایا زاد بہن کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ برسات کے بعد موسم خوشگوار ہو گیا تھا، اور لان میں لگے سفید اور سُرخ گُلاب کی خوشبو نے پورے ماحول کو جکڑ رکھا تھا۔
گھر کے اندر کا ماحول کسی فلم کے سیٹ سے کم نہیں تھا۔ ہزاروں رنگوں کی روشنیوں کی جھلملاہٹ، لان میں لگے مرون اور گولڈن شامیانے، اور ہر طرف بھاگتے پھرتے بچے، بزرگ، اور رشتہ دار۔ یہ سب کچھ بہت پُرجوش تھا، مگر اِس شور میں ایک گہرا جذباتی تناؤ بھی موجود تھا۔
اہم کرداروں کا تعارف اور ٹینشن
بڑی امی (زَرینہ بیگم):
رِمین کی خالہ اور دلہن کی والدہ، زَرینہ بیگم، جو اس وقت مرکزی (رمین کی خالہ کی شادی اس کے تایا سے ہوئی تھی )ہال میں پریشانی کا مجسمہ بنی ہوئی تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں نیند کی کمی تھی، اور وہ ہر دو منٹ بعد کسی نہ کسی چیز کی کمی پر چیخ اُٹھتیں۔
"چِلاؤ مت، میرے اللہ! یہ سُنہری پَر دے یہاں کیوں لگے ہیں؟ میں نے سُرمئی رنگ کہا تھا! کیا کسی کو میری بات سُننا گوارا نہیں؟ میں پاگل ہو جاؤں گی! میری بیٹی کی شادی ہے، اور سب نے تماشہ بنا رکھا ہے!"
چَچا (قاسم حیات):
زَرینہ بیگم کےشوہر کے چھوٹے بھائی اور رِمین کے چچا، قاسم حیات، جو مزاح اور شرارت کا پیکر تھے۔ وہ اپنی بہن جیسی بھابی کی ٹینشن کو دیکھ کر خود بھی ہنس رہے تھے اور دوسروں کو بھی ہنسا رہے تھے۔
قاسم حیات (زَرینہ بیگم کے قریب آ کر، دبے لہجے میں): "باجی! باجی! میں نے آپ کی بات سُن لی ہے اور فوراً اِس پر عمل کر رہا ہوں۔ یہ دیکھو، میں نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ سُرمئی رنگ کا پردہ تمہارے چہرے پر ڈال دیا ہے! اب تم تھوڑی دیر سکون سے بیٹھ جاؤ، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دلہن کی جگہ تمہارا میک اَپ کرنا پڑ جائے۔"
پورے ہال میں ہنسی کا ہلکا سا پھوارا چھوٹا، مگر زَرینہ بیگم کا غصہ مزید بڑھ گیا۔
بڑے ابو (ریاض الدین خواجہ):
وہ خاندان کے سب سے محترم اور رُعب دار فرد تھے۔ ساٹھ سال کے، مگر رُعب ایسا کہ اُن کے سامنے کوئی اونچی آواز میں بات نہ کرے۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھے تھے، مگر اُن کی خاموشی بھی ایک طرح کا سوال پیدا کر رہی تھی۔ آج اُن کے سامنے دلہے کے خاندان سے رِشتوں کی کچھ اہم باتیں ہونی تھیں۔
رِمین کی ماں کا دُکھ اور جذبات کا لمس
رِمین کی ماں، جو اس وقت زَرینہ بیگم کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی، نے اپنی چھوٹی بہن کو ایک طرف لے جا کر اُس کا ہاتھ تھاما۔
رِمین کی ماں (گہری جذباتی آواز میں):
"زَرینہ! میری بہن! بس کر۔ سب ٹھیک ہے۔ اللہ برکت دے گا۔ رِمین، ماہم، علیزے اور ایمان بھی تو ہیں، وہ سنبھال لیں گی۔ تم یہ سب دیکھو تو سہی، اور میرے دِل کا بوجھ بھی سُنو۔ یہ شادی، یہ رونقیں، یہ سب دیکھ کر میرا دِل چاہتا ہے کہ میری بیٹیاں بھی جلد اپنے گھر جائیں، مگر رِمین..."
وہاں موجود چھوٹے بہن بھائیوں نے ایک دم شور مچایا، "آئی لو یو، خالہ! باجی کو بھیجنا نہیں ہے!"
رِمین کی ماں (آنکھوں میں آنسو لیے): "میں اُسے کیوں بھیجوں؟ مجھے تو بس یہ دُکھ ہے کہ وہ وہیں جائے جہاں اُس کے اُونچے خوابوں کا احترام ہو۔ میری بیٹی نے دِل میں جو محل بنایا ہے، وہ اِس چھوٹی دُنیا کی سوچ میں کیسے آ سکتا ہے؟ وہ تو ایسی ہے کہ اگر اُس کا ہمسفر اُسے قید میں رکھے گا، تو وہ پوری دُنیا کو جلا کر رکھ دے گی۔ میں بس اُس کے لیے ایک ایسی پناہ گاہ ڈھونڈ رہی ہوں جہاں اُس کا جنون بھی محفوظ ہو۔اور وہ خود بھی خوش رہے"
: بڑے ابو کا اِشارہ
اِسی دوران، زَرینہ بیگم کو بڑے ابو کا پیغام آیا: "رِشتہ دار آ گئے ہیں۔ زَرینہ کو کہو کہ وہ رِشتوں کی بَات چِیت کے لیے فوراً میرے کمرے میں آئے۔
"انہوں نے اپنے ملازم سے کہا !
زَرینہ بیگم پریشانی میں بڑے ابو کے کمرے کی طرف بھاگیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی، ماحول سرد اور رسمی ہو گیا۔
بڑے ابو (ریاض الدین خواجہ): "زَرینہ! بیٹھو۔
انہوں نے بغیر وقت ضائع کیے بات کا آغاز کیا .دلہا والوں نے کچھ رِشتوں کا ذکر کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ ہمارے خاندان کی تربیت اور کردار سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔"
بڑے ابو نے ایک گہرا سانس لیا اور اپنی آواز میں سختی لائی۔ یہیں سے کہانی میں ایک نیا سسپنس پیدا ہوا، جس کا تعلق براہِ راست ہماری مرکزی کہانی سے تھا۔
بڑے ابو (تھوڑی دیر رُک کر):
"وہ لوگ رِمین کے لیے ایک اِشارہ دے گئے ہیں۔ اُن کا بڑا بیٹا جو یونیورسٹی سے فارغ ہوا ہے، رِمین کو پسند کرتا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا، پکا اور روایتی رِشتہ ہے۔ میں نے کہہ دیا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی اِعتراض نہیں ہوگا۔ تم بھی اُسے تیار کر لو۔
"ہماری بچی کی شادی کے ساتھ ہی رمین کا بھی رشتہ پکا کر دیں گے اور میں اپنے بھائی کو قیامت کے روز کچھ منہ دکھانے کے قابل ہو سکوں گا ...
زَرینہ بیگم کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا، اُس کے ہاتھ لرزنے لگے۔ یہ رشتہ رِمین کے اُصولوں، اُس کی آزادی اور اُس کے خوابوں کی سیدھی توہین تھا۔ رِمین جو ابھی یونیورسٹی کے پروجیکٹ کے کام میں لگی ہوئی تھی، اُسے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اُس کا مستقبل اُس کے بڑوں نے طے کر دیا ہے!
دل میں ایک ڈرامائی آہ:
زَرینہ بیگم کی خاموشی نے کمرے کو بھاری کر دیا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر رِمین کو یہ بات پتہ چلی، تو یہ خواجہ منزل میں ہونے والی سب سے بڑی لڑائیاور بغاوت ہوگی، اور یہ رشتہ اس گھر میں طوفان لا دے گا۔
جذبات کا نقطہ:
کیا یہ "اچھا روایتی رِشتہ" وہی ہے جِس کا ذکر فراز نے اپنی ڈائری میں کیا تھا؟ یا یہ زِرار کے گروپ سے بھی زیادہ خطرناک نیا چیلنج ہے؟