نویں قسط: کَامَن روم کا تصادم اور پانی کا گلاسہاسٹل کی صبح اور وارڈن کا وار
اگلی صبح، ہاسٹل کا ماحول پُراسرار خاموشی اور تناؤ سے بھرا ہوا تھا۔ وارڈن مسز گُل اور پروفیسر قریشی نے دونوں گروہوں کو صبح کے اسمبلی ہال میں کھڑا کر کے خوب ذلیل کیا تھا۔ رات کو ان سب کے فون قبضے میں لے لیے گئے تھے، اور ان سب کو ایک ہفتے کے لیے سسپینڈ کر دیا گیا تھا آخری وارننگ دی گئی تھی، اور ایک ہفتے کے بعد ہاسٹل سے باہر جانے کی مکمل پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس ذلت کے بعد، ہر ایک کے دِل میں غصہ اور شرمندگی بھری ہوئی تھی۔
دونوں گروہ سمجھتے تھے کہ دوسرا گروہ معاہدہ پورا کرنے نہیں آیا تھا، اور اِسی غلط فہمی کی وجہ سے وہ پکڑے گئے۔ لڑکیوں کو یقین تھا کہ لڑکے بزدل تھے، اور لڑکوں کو یقین تھا کہ لڑکیاں مغرور تھیں۔
مگر حقیقت کچھ اور ہی تھی.
کامن روم میں ٹکراؤ
شام چار بجے، پروفیسر جمال کی ہدایت پر، آٹھوں طلباء یونیورسٹی کے مرکزی کَامَن روم میں جمع ہوئے۔ تاکہ جانے سے پہلے انہیں ان کی اسئنمنٹ اور پروجیکٹ کا کام سمجھا دیں یہ ایک وسیع کمرہ تھا جہاں ایک بڑی گول میز رکھی تھی۔
پہلے لڑکیاں پہنچیں۔ رِمین، ہمیشہ کی طرح، اَکڑ میں میز کے ایک طرف بیٹھ گئی۔ اُس کے پیچھے ماہم تھی، جو بار بار اپنے فون کو دیکھ کر مُنہ بنا رہی تھی، جیسے اُس کا دُنیا سے رابطہ کٹ گیا ہو۔ علیزے خاموش بیٹھی تھی، مگر اُس کی نظریں دروازے پر تھیں۔ ایمان تھکی ہوئی تھی اور اُس کا چہرہ زرد پڑا ہوا تھا۔ شاید رات بھر کی بے چینی یا وارڈن کی ڈانٹ کی وجہ سے اُس کی طبیعت تھوڑی خراب تھی۔
جیسے ہی لڑکے کمرے میں داخل ہوئے، کمرے کا درجہ حرارت اور زیادہ گر گیا۔ زِرار کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا۔ وہ رِمین کے عین سامنے بیٹھا، گویا جنگ کی تیاری کر رہا ہو۔
زِرار (تیکھے لہجے میں): "مِس رِمین! آپ کی ٹیم کے کچھ افراد نے ثابت کیا کہ وعدہ صرف توڑنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم تو معاہدہ پورا کرنے آئے تھے، مگر آپ لوگ گھر میں ہی ڈر کر بَند ہو گئیں۔"
رِمین (اکڑ کر): "اِف! زِرار۔ یہ تمہاری پرانی کہانی ہے۔ ہمارا کامن روم بزدلوں سے بھرا پڑا ہے۔ سُنو! تمہارے گارڈ کو تم پر اعتبار نہیں ہوگا، لیکن ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم آج دُوسری طرف سے باہر نکلے ہی نہیں۔ ویسے، اگر آ بھی جاتے تو کِسی کِسی سے معافی مانگتے؟"
یہاں ان کے بیچ ایک نئی غلط فہمی نے جنم لیا…
کمرے میں شدید الفاظ کی جنگ چھڑ گئی، جہاں عُمیر اور ماہم نے اپنی ایگو کا پرچار کیا، جبکہ سمیر اور ایمان نے زبانی رُوسٹنگ کے تیر چلائے۔ علیزے اور آذان ایک بار پھر خاموش تھے۔
اخلاقی عمل: پانی کا گلاس
دورانِ بحث، ایمان نے ایک دم اپنے سر کو جھٹکا دیا، اُس کا چہرہ پسینے سے بھیگ گیا، اور اُس کے ہاتھ لرزنے لگے۔ وہ تیزی سے اپنا سر میز پر جھکانے لگی، گویا اُس کے گُھٹنے جواب دے چکے ہوں۔
رِمین (پریشان ہو کر): "ایمان، کیا ہوا؟"
علیزے اور ماہم بھی فورا متوجہ ہوئی جیسے ان کی جان ہتھیلی پر ا گئی ہو اور ہونا بھی تھا کیونکہ ان سب کی جان بستی تھی ایک دوسرے میں ابھی وہ سب ایمان کی طرف متوجہ ہی ہوئی تھی
اِس سے پہلے کہ کوئی لڑکی حرکت کرتی، سمیر نے تیزی سے ردِعمل دیا۔ سمیر، جو اپنے اصولوں اور غصے کے لیے جانا جاتا تھا، کسی کی نہ سُنتا تھا، لیکن اُس کی اِخلاقیات اُس کے غصے سے زیادہ مضبوط تھیں۔ اُس نے بغیر کسی سے پوچھے، تیزی سے کمرے کے کونے میں رکھے واٹر کولر کی طرف رُخ کیا۔
اُس نے ایک صاف گلاس بھرا، اور فوراً واپس آ کر ایمان کے سامنے رکھا۔
سمیر (سنجیدگی سے، پہلی بار نرم آواز میں): "یہ لو۔ پہلے پانی پیو۔ غصے کا نہیں، طبیعت کا مسئلہ ہے۔"
یہ ایک چھوٹا سا لمحہ تھا، مگر کَامَن روم کا شدید تناؤ فوراً پگھل گیا۔ سمیر نے اِسے کسی پر احسان نہیں سمجھا، بلکہ ایک عام اِنسانی ضرورت کا ردِعمل تھا۔
ایمان، جس کا مُنہ ہر وقت رُوسٹنگ اور طنز کے لیے تیار رہتا تھا، حیرانی سے سمیر کو دیکھتی رہی۔ وہ اتنا مہربان کیوں تھا؟ وہ آہستہ آہستہ گلاس اُٹھایا اور پانی پیا۔
رِمین، زِرار، اور باقی سب یہ غیر متوقع منظر دیکھ کر خاموش ہو گئے۔
دو رازوں کا ٹکراؤ
زِرار نے فوراً بات بدل دی، کیونکہ وہ اپنے دوست کی نرمی کو اپنی شکست نہیں بنانا چاہتا تھا۔ "اچھا! اب کافی ہے، رِمین۔ ہم دونوں کو پتہ ہے کہ ہم میں کوئی بزدل نہیں ہے۔ ہم کل کی بات کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ مگر اب یہ پروجیکٹ ہمارا نئے میدانِ جنگ ہے۔"
رِمین (ہوش میں آتے ہوئے): "ٹھیک ہے۔ پروفیسر جمال کے دیے گئے پرابلم کا سولیوشن نکالنا آسان ہے، مگر یہ مت بھولنا کہ اگر تُم لوگوں نے غفلت کی، تو ہم تمہیں یونیورسٹی سے نکال باہر کریں گے۔"
جیسے ہی بات ختم ہوئی، علیزے کا دِل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اُس نے سُنا تھا کہ لڑکے بھی پکڑے گئے ہیں۔ اُس نے ایک نظر آذان کو دیکھا۔
آذان نے علیزے کی طرف دیکھا، اور پھر سمیر کو پانی لاتے ہوئے دیکھا۔ اُس کے دِل میں بے چینی بڑھ گئی۔ وہ علیزے کو یہ بات بتانا چاہتا تھا کہ وہ بھی پکڑے گئے تھے، مگر اُس کی ٹیم نے یہ بات زِرار کے غرور کی وجہ سے چھپا رکھی تھی تاکہ کمزوری ظاہر نہ ہو۔
علیزے کو آذان کی آنکھوں میں ایک خاموش سوال نظر آیا: "کیا تم نے میری بات کسی کو بتائی؟"
علیزے نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا: "میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے۔"
اُن کے درمیان یہ خاموش بات چیت صرف سمیر نے پکڑ لی، جو اب ایمان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اُسے لگا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی تو رِشتہ ہے جو سب سے چھپا ہوا ہے۔ یہ ایک اور راز تھا جِس نے کہانی میں ایک نیا موڑ لے لیا تھا۔
______________________________________________________